EN हिंदी
مرے شعروں میں فن کاری نہیں ہے | شیح شیری
mere sheron mein fankari nahin hai

غزل

مرے شعروں میں فن کاری نہیں ہے

فرحت احساس

;

مرے شعروں میں فن کاری نہیں ہے
کہ مجھ میں اتنی ہشیاری نہیں ہے

دوائے موت کیوں لیتے ہو اتنی
اگر جینے کی بیماری نہیں ہے

بدن پھر سے اگا لے گی یہ مٹی
کہ میں نے جاں ابھی ہاری نہیں ہے

محبت ہے ہی اتنی صاف و سادہ
یہ میری سہل انگاری نہیں ہے

اسے بچوں کے ہاتھوں سے اٹھاؤ
یہ دنیا اس قدر بھاری نہیں ہے

میں اس پتھر سے ٹکراتا ہوں بے کار
ذرا بھی اس میں چنگاری نہیں ہے

نہ کیوں سجدہ کرے اپنے بتوں کا
یہ سر مسجد کا درباری نہیں ہے

گیا یہ کہہ کے مجھ سے عشق کا روگ
کہ تجھ کو شوق بیماری نہیں ہے

ہمارا عشق کرنا جسم کے ساتھ
عبادت ہے گنہ گاری نہیں ہے

براہ جسم ہے سارا تصوف
بدن صوفی ہے برہمچاری نہیں ہے

یہ کوئی اور ہوگا فرحتؔ احساس
نہیں یہ بھی مری باری نہیں ہے