EN हिंदी
مرے شجر تجھے موسم نیا بناتے رہیں | شیح شیری
mere shajar tujhe mausam naya banate rahen

غزل

مرے شجر تجھے موسم نیا بناتے رہیں

اسعد بدایونی

;

مرے شجر تجھے موسم نیا بناتے رہیں
گلاب صبر تری ٹہنیوں پہ آتے رہیں

جو دوستوں کی کمانوں کو تیر دیتا ہے
ہمیں یہ ظرف بھی بخشے کہ زخم کھاتے رہیں

بس اک چراغ ہے اپنی متاع بیش بہا
سو شام آتی رہے ہم اسے جلاتے رہیں

سحر کے رنگ دریچوں کو سیر کرتے جائیں
ہوا کے جھونکے کھلے آنگنوں میں آتے رہیں

کبھی کبھی کوئی سورج طلوع ہوتا رہے
ردائے ابر میں تارے بھی منہ چھپاتے رہیں

فصیل شہر انا رفتہ رفتہ گرتی جائے
یہ زلزلے مری جاں میں ہمیشہ آتے رہیں