مرے شانے پہ رہنے دو ابھی گیسو ذرا ٹھہرو
بکھر جانے دو اپنے جسم کی خوشبو ذرا ٹھہرو
ادھورا چھوڑ کر جاؤ نہ یہ قصہ محبت کا
چھنکتے ہیں ابھی ارمان کے گھنگھرو ذرا ٹھہرو
سکون قلب کی خاطر شب فرقت میں چوموں گا
بنا لینے دو تصویر لب و ابرو ذرا ٹھہرو
مری رگ رگ میں جاناں بھر گیا ہے نشۂ قربت
اتر جائے تمہارے لمس کا جادو ذرا ٹھہرو
یہ موسم کا تقاضہ اور بھیگی شب کی حسرت ہے
بدلنا عشق میں ہے آخری پہلو ذرا ٹھہرو
کلیجہ شق ہوا جائے بچھڑنے کے تصور سے
محبت دل میں کرتی ہے اب ہا و ہو ذرا ٹھہرو
رواں ہے خون کا دریا مری آنکھوں سے اے شمسیؔ
ابھی رقصاں ہے دل میں درد کا جگنو ذرا ٹھہرو

غزل
مرے شانے پہ رہنے دو ابھی گیسو ذرا ٹھہرو
ہدایت اللہ خان شمسی