مرے ریاض کا آخر اثر دکھائی دیا
چھپا تھا دل میں جو نغمہ مجھے سنائی دیا
جہاں شناس و خود آگاہ کر دیا مجھ کو
مرے شعور نے وہ درد آشنائی دیا
جو پا لیا تجھے میں خود کو ڈھونڈنے نکلا
تمہارے قرب نے بھی زخم نارسائی دیا
ابھی تو توڑ تھکے بازوؤں کی پتواریں
وہ دور افق پہ کوئی بادباں دکھائی دیا
زمانے بیت گئے دشت دشت پھرنے کے
نئے شعور نے ہم کو سفر خلائی دیا
غزل
مرے ریاض کا آخر اثر دکھائی دیا
حزیں لدھیانوی