مرے قدموں میں دنیا کے خزانے ہیں اٹھا لوں کیا
زمانہ گر چکا جتنا میں خود کو بھی گرا لوں کیا
ترا چہرہ بنانے کی جسارت کر رہا ہوں میں
لہو آنکھوں سے اترا ہے تو رنگوں میں ملا لوں کیا
سنا ہے آج بستی سے مسافر بن کے گزرو گے
اگر نکلو ادھر سے تو میں اپنا گھر سجا لوں کیا
بھرا ہو دل حسد سے تو نظر کچھ بھی نہیں آتا
میں نفرت میں عداوت میں محبت کو ملا لوں کیا
کی برسوں سے تو گن گن کر میں ان کو خرچ کرتا ہوں
ابھی بھی چند سانسیں ہیں تری خاطر بچا لوں کیا
غزل
مرے قدموں میں دنیا کے خزانے ہیں اٹھا لوں کیا
اسلم راشد