EN हिंदी
مرے پیچھے یہ تو محال ہے کہ زمانہ گرم سفر نہ ہو | شیح شیری
mere pichhe ye to muhaal hai ki zamana garm-e-safar na ho

غزل

مرے پیچھے یہ تو محال ہے کہ زمانہ گرم سفر نہ ہو

مجروح سلطانپوری

;

مرے پیچھے یہ تو محال ہے کہ زمانہ گرم سفر نہ ہو
کہ نہیں مرا کوئی نقش پا جو چراغ راہ گزر نہ ہو

رخ تیغ سے جو نہ ہو کبھی سحر ایسی کوئی نہیں مری
نہیں ایسی ایک بھی شام جو تہ زلف دار بسر نہ ہو

مرے ہاتھ ہیں تو لوں گا خود میں اب اپنا ساقی مے کدہ
خم غیر سے تو خدا کرے لب جام بھی مرا تر نہ ہو

میں ہزار شکل بدل چکا چمن جہاں میں سن اے صبا
کہ جو پھول ہے ترے ہاتھ میں یہ مرا ہی لخت جگر نہ ہو

جنہیں سب سمجھتے ہیں مہر و مہ نہ ہوں صرف چند نقوش پا
جسے کہتے ہیں کرۂ زمیں فقط ایک سنگ سفر نہ ہو

ترے پا زمیں پہ رکے رکے ترا سر فلک پہ جھکا جھکا
کوئی تجھ سے بھی ہے عظیم تر یہی وہم تجھ کو مگر نہ ہو

شب ظلم نرغۂ راہزن سے پکارتا ہے کوئی مجھے
میں فراز دار سے دیکھ لوں کہیں کاروان سحر نہ ہو