مرے نشان بہت ہیں جہاں بھی ہوتا ہوں
مگر دراصل وہیں بے نشاں بھی ہوتا ہوں
اسی کے رہتا ہوں خواب و خیال میں اکثر
مگر کبھی کبھی اپنے یہاں بھی ہوتا ہوں
ادھر ادھر مجھے رکھتا ہے وہ بہت لیکن
کبھی کبھار مگر درمیاں بھی ہوتا ہوں
لگا بھی کرتی ہے بازار میں مری قیمت
کسی کسی کے لیے رائیگاں بھی ہوتا ہوں
بنائے رکھتے ہیں سب میر کارواں بھی مجھے
کبھی میں گرد رہ کارواں بھی ہوتا ہوں
بشر ہوں میں کئی مجبوریاں بھی ہیں میری
اداس رہتے ہوئے شادماں بھی ہوتا ہوں
پڑا ٹھٹھرتا بھی ہوں برف برف موسم میں
اسی زمانے میں آتش فشاں بھی ہوتا ہوں
بدلتی رہتی ہے میری بھی کیفیت کیا کچھ
کہ آگ ہی نہیں رہتا دھواں بھی ہوتا ہوں
میں جان و جسم ہوں گھر ہو کہ وہ گلی ہو ظفرؔ
یہاں بھی ہوتا ہوں میں اور وہاں بھی ہوتا ہوں
غزل
مرے نشان بہت ہیں جہاں بھی ہوتا ہوں
ظفر اقبال