مرے نصیب نے جب مجھ سے انتقام لیا
کہاں کہاں تری یادوں نے ہاتھ تھام لیا
فضا کی آنکھ بھر آئی ہوا کا رنگ اڑا
سکوت شام نے چپکے سے تیرا نام لیا
وہ میں نہیں تھا کہ اک حرف بھی نہ کہہ پایا
وہ بے بسی تھی کہ جس نے ترا سلام لیا
ہر اک خوشی نے ترے غم کی آبرو رکھ لی
ہر اک خوشی سے ترے غم نے انتقام لیا
وہ معرکہ تھا کہ فتح و شکست بھی نہ ملی
نہ جانے شاذؔ نے کس مصلحت سے کام لیا
غزل
مرے نصیب نے جب مجھ سے انتقام لیا
شاذ تمکنت