مرے نالوں میں اتنا تو اثر ہے
شب غم ہے مگر کچھ مختصر ہے
امیدیں لائے تھے غم لے کے اٹھے
یہ روداد حیات مختصر ہے
نہیں ہے دور کچھ منزل ہماری
زمانہ راہ میں حائل مگر ہے
اسیروں کو رہائی مل تو جائے
مگر شرط شکست بال و پر ہے
وہ راہیں جن کو سونا کر گئے وہ
انہیں پر آج تک میری نظر ہے
جہاں تم ہو وہاں ہیں لالہ و گل
جہاں ہم ہیں وہاں برق و شرر ہے
بدل ڈالا ہے جس نے میرا عالم
کسی کی اک نگاہ مختصر ہے
الٰہی خیر میرے آشیاں کی
صبا کے ساتھ پھر موج شرر ہے
مہ و خورشید کو سمجھا ہے منزل
خدایا کس قدر عاجز بشر ہے
غزل
مرے نالوں میں اتنا تو اثر ہے
ممتاز میرزا