EN हिंदी
مرے مٹنے پہ گر تو بھی مٹا ہوتا تو کیا ہوتا | شیح شیری
mere miTne pe gar tu bhi miTa hota to kya hota

غزل

مرے مٹنے پہ گر تو بھی مٹا ہوتا تو کیا ہوتا

نادر شاہجہاں پوری

;

مرے مٹنے پہ گر تو بھی مٹا ہوتا تو کیا ہوتا
تجھے بھی صبر اے دل آ گیا ہوتا تو کیا ہوتا

چلے آتے ہیں لاکھوں سرفروشی کی تمنا میں
ترا کوچہ اگر دار الشفا ہوتا تو کیا ہوتا

عدم سے میں نہ آتا اس جہاں میں غم اٹھانے کو
اگر ہستی مجھے تیرا پتا ہوتا تو کیا ہوتا

تجھی پہ منصفی ہے لے تو ہی انصاف سے کہہ دے
اگر تیری طرح میں بے وفا ہوتا تو کیا ہوتا

ستارے کیوں دکھاتی مجھ کو دن بھر میری ناکامی
وہ شب کو مل کے افشاں آ گیا ہوتا تو کیا ہوتا

سر شوریدہ کو میں پتھروں سے پھوڑتا پھرتا
بت کافر جو تو میرا خدا ہوتا تو کیا ہوتا

ثبات اس کو نہیں پھر بھی فدا ہے حضرت انساں
جو یہ دار فنا دار بقا ہوتا تو کیا ہوتا

کسی کے پاس رہ کر بھی تڑپتے ہجر میں نادرؔ
ہمیں جنت میں بھی کچھ آسرا ہوتا تو کیا ہوتا