مرے لیے تو یہ بے کار ہونے والا ہے
یہ دل کہ درد سے بیزار ہونے والا ہے
میں اس سے خواب کے رستے پہ ملنے آیا ہوں
مگر وہ نیند سے بیدار ہونے والا ہے
جو فیصلہ سر دربار ہونے والا تھا
وہ فیصلہ پس دیوار ہونے والا ہے
سنا ہے یوسف ثانی وہاں نہیں آیا
سنا ہے ختم وہ بازار ہونے والا ہے
وہ جس کے ہاتھ سے قصے نے موت پائی ہے
سنا ہے صاحب کردار ہونے والا ہے

غزل
مرے لیے تو یہ بے کار ہونے والا ہے
اسحاق وردگ