مرے خدا کوئی چھاؤں کوئی زمیں کوئی گھر
ہمارے جیسوں کی قسمت میں کیوں نہیں کوئی گھر
اے بے نیاز بتا حشر کب معین ہے
بہت لرزنے لگا ہے تہ جبیں کوئی گھر
کمر پہ لاد کے چلتے رہوگے تنہائی
تمام عمر ملے گا نہیں کہیں کوئی گھر
مکان بننے سے کوئی جگہ بچی ہی نہیں
ہوا تو کرتا تھا پہلے کہیں کہیں کوئی گھر
کوئی عذاب تھا جو سارا شہر لے ڈوبا
کہ چھوڑتے ہیں بھلا اس طرح مکیں کوئی گھر

غزل
مرے خدا کوئی چھاؤں کوئی زمیں کوئی گھر
شہنواز زیدی