مرے خیال سے آگے ترا نشانہ پڑا
سمند شوق پہ اک اور تازیانہ پڑا
ابھی تو عشق و نظر کے ہزار پہلو تھے
گلے ہمارے کہاں سے غم زمانہ پڑا
پرائے نور سے میں کسب فیض کیا کرتا
اثر پڑا ہے کبھی کچھ تو غائبانہ پڑا
مجھے بھی قرض چکانا تھا اس کا اب کے برس
غلط نہیں جو مرا دشت میں ٹھکانا پڑا
کسی کے حصے میں آئی خرد کی سفاکی
کسی کے ہاتھ غم عشق کا خزانہ پڑا
رہا نہ کوئی یہاں سر بسر تہی دامن
سبھی کے ظرف میں مقدور پھر زمانہ پڑا
ہزار آنکھ دکھاتے رہے عدو نامیؔ
غزل غزل ہی رہی فرق اک ذرا نہ پڑا

غزل
مرے خیال سے آگے ترا نشانہ پڑا
نامی انصاری