مرے خیال کا سایہ جہاں پڑا ہوگا
برنگ رنگ طلسم رواں پڑا ہوگا
وفور یاس میں امید جب جلی ہوگی
سمے کی آنکھ میں کچھ تو دھواں پڑا ہوگا
اتر گئی جو اندھیروں میں ہنس کے اس پہلی
کرن کا پاؤں نہ جانے کہاں پڑا ہوگا
شعور نو کے جب آئینے اڑ رہے ہوں گے
عجیب عکس مہ و کہکشاں پڑا ہوگا
ہر آہ سرد لبوں تک پہنچ گئی ہوگی
ہر آہ سرد کا دل پر نشاں پڑا ہوگا
کسے خبر تھی کہ گلچیں کی قید میں اک دن
گلوں کے سامنے خود باغباں پڑا ہوگا
قسم تری مرے مولا وہ دن قریب ہے جب
زمیں کے پاؤں ترا آسماں پڑا ہوگا
غزل
مرے خیال کا سایہ جہاں پڑا ہوگا
تخت سنگھ