مرے کریم عنایت سے تیری کیا نہ ملا
گناہ کر کے بھی بے مزد آب و دانہ ملا
اجل نہ تھی تیری قسمت میں، ورنہ اے بلبل
وہیں تو دام بھی تھا جس جگہ سے دانہ ملا
شمار کس سے ہو نقش و نگار قدرت کا
جدھر نگاہ پڑی اک نیا خزانہ ملا
کرم کا لطف نہ پایا ستم کی لذت سے
کلی کلی سے مجھے زخم تازیانہ ملا
بٹھا دیا تھا مجھے جوشش حوادث نے
بڑی کشش سے سر موج اک ٹھکانہ ملا
جہاں میں خاک کے ذرے کو سربلندی کیا
عروج ماہ ملا بھی تو یک شبانہ ملا
کیا ہے فیصلہ قسام خلق نے کیا خوب
بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا
صدف نے ظلم کیا چھوڑ دی جو فکر و تلاش
جبھی تو رزق میں پتھر کا ایک دانہ ملا
ہم اس خیال کے تقصیر وار ہیں شاعرؔ
جہاں بھر میں کوئی دوست باوفا نہ ملا
غزل
مرے کریم عنایت سے تیری کیا نہ ملا
آغا شاعر قزلباش