مرے حق میں کوئی ایسی دعا کر
میں زندہ رہ سکوں تجھ کو بھلا کر
فسردہ ہوں تجھے کھو کر کہ جیسے
کوئی بچہ قلم تختی گنوا کر
یہاں سورج سے خالی دن ہیں سارے
کہا تو تھا تجھے روشن دیا کر
بھلانے کی میں کوشش کر رہا ہوں
تری تصویر کمرے میں سجا کر
ہوا محروم میں شمس و قمر سے
گھنا اک پیڑ آنگن میں لگا کر
مجھے میرے مقابل کر دیا ہے
کسی نے آئینہ مجھ کو دکھا کر
خود اپنا راستہ ہی کھو دیا ہے
سفر میں گرد پاؤں سے اڑا کر
میں کیسے شوق کی تسکین کرتا
کسی زخمی پرندے کو اڑا کر
میں چنتا پھرتا ہوں کاغذ کے ٹکڑے
کتابوں کو سمندر میں بہا کر
گھٹن کو کر لیا اپنا مقدر
مکاں کو شہر سے اونچا اٹھا کر
میں اس کو جانتا ہوں بات میری
وہ اب بھی ٹال دے گا مسکرا کر
نویدؔ صبح کا حاصل ہے سورج
اجالا ہوگا تاروں کو مٹا کر

غزل
مرے حق میں کوئی ایسی دعا کر
سیمان نوید