EN हिंदी
مرے غم کے لیے اس بزم میں فرصت کہاں پیدا | شیح شیری
mere gham ke liye is bazm mein fursat kahan paida

غزل

مرے غم کے لیے اس بزم میں فرصت کہاں پیدا

میکش اکبرآبادی

;

مرے غم کے لیے اس بزم میں فرصت کہاں پیدا
یہاں تو ہو رہی ہے داستاں سے داستاں پیدا

وہی ہے ایک مستی سی وہاں نظروں میں یاں دل میں
وہی ہے ایک شورش ہی وہاں پنہاں یہاں پیدا

تو اپنا کارواں لے چل نہ کر غم میرے ذروں کا
انہیں ذروں سے ہو جائے گا پھر سے کارواں پیدا

مری عمریں سمٹ آئی ہیں ان کے ایک لمحے میں
بڑی مدت میں ہوتی ہے یہ عمر جاوداں پیدا

ذرا تم نے نظر پھیری کہ جیسے کچھ نہ تھا دل میں
ذرا تم مسکرائے ہو گیا پھر اک جہاں پیدا

ہماری سخت جانی سے ہوا شل ہاتھ قاتل کا
سر مقتل ہی ہم نے کر لیا دارالاماں پیدا

توقع ہے کہ بدلے گا زمانہ لیکن اے میکشؔ
زمانہ ہے یہی تو ہو چکے انساں یہاں پیدا