EN हिंदी
مرے دل میں خوشبو بسی تھی جو وہ مکان اپنا بدل گئی | شیح شیری
mere dil mein KHushbu basi thi jo wo makan apna badal gai

غزل

مرے دل میں خوشبو بسی تھی جو وہ مکان اپنا بدل گئی

عتیق انظر

;

مرے دل میں خوشبو بسی تھی جو وہ مکان اپنا بدل گئی
کسی اور ابر کی چھاؤں میں بڑی دور مجھ سے نکل گئی

وہ جو برف ابھی تھی جمی ہوئی کسی مصلحت کے حصار میں
ذرا وقت کی جو ہوا لگی تو وہ ایک پل میں پگھل گئی

مرے گھر کی اونچی منڈیر پہ وہ جو کالی بلی تھی گھومتی
وہی آ کے چپکے سے رات میں مری فاختہ کو نگل گئی

بڑی تنگیوں میں پلی ہوئی وہ غزل دکھوں میں بڑی ہوئی
تجھے لطف عیش نہ دے سکی تو وہ تیری راہ میں جل گئی

اسے دیکھنے کی تھی آرزو مجھے اس کی تھی بڑی جستجو
مگر اس کے عارض ناز پہ مری ہر نگاہ پھسل گئی