مرے دل میں خوشبو بسی تھی جو وہ مکان اپنا بدل گئی
کسی اور ابر کی چھاؤں میں بڑی دور مجھ سے نکل گئی
وہ جو برف ابھی تھی جمی ہوئی کسی مصلحت کے حصار میں
ذرا وقت کی جو ہوا لگی تو وہ ایک پل میں پگھل گئی
مرے گھر کی اونچی منڈیر پہ وہ جو کالی بلی تھی گھومتی
وہی آ کے چپکے سے رات میں مری فاختہ کو نگل گئی
بڑی تنگیوں میں پلی ہوئی وہ غزل دکھوں میں بڑی ہوئی
تجھے لطف عیش نہ دے سکی تو وہ تیری راہ میں جل گئی
اسے دیکھنے کی تھی آرزو مجھے اس کی تھی بڑی جستجو
مگر اس کے عارض ناز پہ مری ہر نگاہ پھسل گئی
غزل
مرے دل میں خوشبو بسی تھی جو وہ مکان اپنا بدل گئی
عتیق انظر