مرے دل میں ہے کہ پوچھوں کبھی مرشد مغاں سے
کہ ملا جمال ساقی کو یہ طنطنہ کہاں سے
وہ یہ کہہ رہے ہیں ہم کو ترے حال کی خبر کیا
تو اٹھا سکا نگاہیں نہ بتا سکا زباں سے
جو انہیں وفا کی سوجھی تو نہ زیست نے وفا کی
ابھی آ کے وہ نہ بیٹھے کہ ہم اٹھ گئے جہاں سے
میں عدم کے لالہ زاروں میں نواگر ازل تھا
مجھے کھینچ لائی ظالم تری آرزو کہاں سے
مری سر نوشت میں تھا وہی داغ نامرادی
جو ملا مری جبیں کو ترے سنگ آستاں سے
بچے بجلیوں کی زد سے وہی طائران دانا
جو کڑک چمک سے پہلے نکل آئے آشیاں سے
یہ ہے ماجرائے وحشت کہ ملا سراغ محمل
نہ غبار کارواں سے نہ درائے کارواں سے
نہیں کچھ سمجھ میں آتا یہ عجیب ماجرا ہے
کہ زمیں کے رہنے والوں کو ہدایت آسماں سے
شب غم جو آئی سالکؔ مٹے باطنی اندھیرے
مرا دل ہوا منور تب و تاب جاوداں سے
غزل
مرے دل میں ہے کہ پوچھوں کبھی مرشد مغاں سے
عبد المجید سالک