مرے چاروں طرف ایک آہنی دیوار کیوں ہے
اگر سچا ہوں میں سچ کا مقدر ہار کیوں ہے
نشاط و انبساط و شادمانی زیست ٹھہری
تو بتلائے کوئی جینا مجھے آزار کیوں ہے
مسافت زندگی ہے اور دنیا اک سرائے
تو اس تمثیل میں طوفان کا کردار کیوں ہے
جہاں سچ کی پذیرائی کے دعویدار ہیں سب
اسی بزم سخن میں بولنا دشوار کیوں ہے
یقیناً حادثے بھی جزو خاص زندگی ہیں
ہمارا شہر ہی ان سے مگر دو چار کیوں ہے
مری راہوں میں جب ہوتے نہیں کانٹے تصورؔ
میں ڈر کر سوچتا ہوں راستہ ہموار کیوں ہے

غزل
مرے چاروں طرف ایک آہنی دیوار کیوں ہے
یعقوب تصور