EN हिंदी
مرے بدن سے کبھی آنچ اس طرح آئے | شیح شیری
mere badan se kabhi aanch is tarah aae

غزل

مرے بدن سے کبھی آنچ اس طرح آئے

امین راحت چغتائی

;

مرے بدن سے کبھی آنچ اس طرح آئے
لپٹ کے مجھ سے مرے ساتھ وہ بھی جل جائے

میں آگ ہوں تو مرے پاس کوئی کیوں بیٹھے
میں راکھ ہوں تو کوئی کیوں کریدنے آئے

بھرے دیار میں اب اس کو کس طرح ڈھونڈیں
ہوا چلے تو کہیں بوئے ہم نفس آئے

یہ رات اور روایات کی یہ زنجیریں
گلی کے موڑ سے دو لوٹتے ہوئے سائے

وہی بدن وہی چہرہ وہی لباس مگر
کوئی کہاں سے بساونؔ کا مو قلم لائے

کوئی تو بات ہوئی ہے عجیب سی راحتؔ
کہ آئنہ بھی نہ وہ چھوڑے اور شرمائے