مرے بدن سے کبھی آنچ اس طرح آئے
لپٹ کے مجھ سے مرے ساتھ وہ بھی جل جائے
میں آگ ہوں تو مرے پاس کوئی کیوں بیٹھے
میں راکھ ہوں تو کوئی کیوں کریدنے آئے
بھرے دیار میں اب اس کو کس طرح ڈھونڈیں
ہوا چلے تو کہیں بوئے ہم نفس آئے
یہ رات اور روایات کی یہ زنجیریں
گلی کے موڑ سے دو لوٹتے ہوئے سائے
وہی بدن وہی چہرہ وہی لباس مگر
کوئی کہاں سے بساونؔ کا مو قلم لائے
کوئی تو بات ہوئی ہے عجیب سی راحتؔ
کہ آئنہ بھی نہ وہ چھوڑے اور شرمائے
غزل
مرے بدن سے کبھی آنچ اس طرح آئے
امین راحت چغتائی