EN हिंदी
مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے | شیح شیری
mere badan mein pighalta hua sa kuchh to hai

غزل

مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

راجیندر منچندا بانی

;

مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
اک اور ذات میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

مری صدا نہ سہی ہاں مرا لہو نہ سہی
یہ موج موج اچھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

کہیں نہ آخری جھونکا ہو مٹتے رشتوں کا
یہ درمیاں سے نکلتا ہوا سا کچھ تو ہے

نہیں ہے آنکھ کے صحرا میں ایک بوند سراب
مگر یہ رنگ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے

جو میرے واسطے کل زہر بن کے نکلے گا
ترے لبوں پہ سنبھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

یہ عکس پیکر صد لمس ہے نہیں نہ سہی
کسی خیال میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

بدن کو توڑ کے باہر نکلنا چاہتا ہے
یہ کچھ تو ہے یہ مچلتا ہوا سا کچھ تو ہے

کسی کے واسطے ہوگا پیام یا کوئی قہر
ہمارے سر سے یہ ٹلتا ہوا سا کچھ تو ہے

یہ میں نہیں نہ سہی اپنے سرد بستر پر
یہ کروٹیں سی بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے

وہ کچھ تو تھا میں سہارا جسے سمجھتا تھا
یہ میرے ساتھ پھسلتا ہوا سا کچھ تو ہے

بکھر رہا ہے فضا میں یہ دود روشنی کا
ادھر پہاڑ کے جلتا ہوا سا کچھ تو ہے

مرے وجود سے جو کٹ رہا ہے گام بہ گام
یہ اپنی راہ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے

جو چاٹتا چلا جاتا ہے مجھ کو اے بانیؔ
یہ آستین میں پلتا ہوا سا کچھ تو ہے