EN हिंदी
مرے اندر جو لہرانے لگی ہے | شیح شیری
mere andar jo lahrane lagi hai

غزل

مرے اندر جو لہرانے لگی ہے

خالد غنی

;

مرے اندر جو لہرانے لگی ہے
مجھی کو مجھ سے الجھانے لگی ہے

نہ تو پورس نہ شاید میں سکندر
لڑائی پر بھی لڑ جانے لگی ہے

کسی گرتے ہوئے پتے سے پوچھو
درختوں کو ہوا کھانے لگی ہے

سوا نیزے پہ سورج آ گیا ہے
ندی میں باڑھ سی آنے لگی ہے

وہ جس کو ذہن سے جھٹکا دیا تھا
وہ خواہش دل میں گھر پانے لگی ہے

لکیریں پیٹنے والوں کو خالدؔ
لکیروں پر ہنسی آنے لگی ہے