مرے عیبوں کی اصلاحیں ہوا کیں بحث دشمن سے
لیا ہے راہبر کا کام اکثر میں نے دشمن سے
وہ موتی ہوں جو کھو جاتا ہے ساحل میں سمندر کے
وہ دانہ ہوں بکھر کے دور ہوتا ہے جو خرمن سے
فضا صحرا کی آنکھوں سے جو دیکھیں ہیں وہ کہہ دیں گے
گل خود رو کا عالم کم نہیں گلہائے گلشن سے
کسی کی دوستی یوں خاک میں کوئی ملاتا ہے
مرے بارے میں تم اور مشورے لیتے ہو دشمن سے
تماشا دیکھیے محشر میں قاتل مجھ سے لڑتا ہے
کہ اپنے خون کا دھبہ چھڑا دے میرے دامن سے
زمیں سے آسماں تک چھا رہی جو یہ اداسی ہے
بگولہ کوئی اٹھا ہے کسی بیکس کے مدفن سے
قریب در پہنچ کر یوں غش آنے کا سبب آخر
یہ ممکن ہے جھلک اس کی نظر آئی ہو چلمن سے
ہر آفت سے چمن محفوظ ہے اب تو یہ سنتا ہوں
عداوت برق صرصر کو تھی میرے ہی نشیمن سے
غرض کیا بحث و حجت سے ہمارا تو یہ مشرب ہے
جہاں تک ہو کنارے ہی رہے شیخ و برہمن سے
حفیظؔ اس کو سمجھ لے خوب ہیں یہ کام کی باتیں
اگر رفعت طلب ہے جھک کے مل ہر دوست دشمن سے
غزل
مرے عیبوں کی اصلاحیں ہوا کیں بحث دشمن سے
حفیظ جونپوری