مرا وجود ہے اک نقش آب کی صورت
شکست جس کا مقدر ہے خواب کی صورت
بکھر نہ جاؤں فضا میں ورق ورق ہو کر
ہوا کی زد میں ہوں کہنہ کتاب کی صورت
تناؤ حد سے بڑھے گا تو ٹوٹ جائیں گے
دلوں کے رابطے تار رباب کی صورت
کسی بھی لمحے نکل جاؤں گا ہوا کی طرح
مرا بدن ہے حصار حباب کی صورت
درون سینہ کوئی چیختا ہے شام و سحر
یہ قہقہے تو ہیں رخ پر نقاب کی صورت
غرور وقت سے نشہ ہوا سوا صابرؔ
مری انا تھی پرانی شراب کی صورت
غزل
مرا وجود ہے اک نقش آب کی صورت
نوبہار صابر