EN हिंदी
مرا تو وقت گھر سے کوچ ہی کا ہے | شیح شیری
mera to waqt ghar se kuch hi ka hai

غزل

مرا تو وقت گھر سے کوچ ہی کا ہے

محشر بدایونی

;

مرا تو وقت گھر سے کوچ ہی کا ہے
سوال سارے گھر کی زندگی کا ہے

یہاں تو دوستی نبھے نہ دشمنی
زمیں ہے جس کی آسماں اسی کا ہے

ترس نہ جائے رقص و رم کو بھی کہیں
وہ دشت جس پہ سایہ آدمی کا ہے

جو دن نہ گزرے وہ بھی دن گزارنا
ہمارا کیا یہ سانحہ سبھی کا ہے

یہ امتحاں گراں ہے اور بہت گراں
مگر یہ کرب تو کبھی کبھی کا ہے

مرے شکست جو شکست کھا گئے
خموش ہوں کہ دن ہی خامشی کا ہے

ہر ابتدا کو انتہا کا ہے گماں
ہر انتہا کو غم کسی کمی کا ہے