مرا تو وقت گھر سے کوچ ہی کا ہے
سوال سارے گھر کی زندگی کا ہے
یہاں تو دوستی نبھے نہ دشمنی
زمیں ہے جس کی آسماں اسی کا ہے
ترس نہ جائے رقص و رم کو بھی کہیں
وہ دشت جس پہ سایہ آدمی کا ہے
جو دن نہ گزرے وہ بھی دن گزارنا
ہمارا کیا یہ سانحہ سبھی کا ہے
یہ امتحاں گراں ہے اور بہت گراں
مگر یہ کرب تو کبھی کبھی کا ہے
مرے شکست جو شکست کھا گئے
خموش ہوں کہ دن ہی خامشی کا ہے
ہر ابتدا کو انتہا کا ہے گماں
ہر انتہا کو غم کسی کمی کا ہے
غزل
مرا تو وقت گھر سے کوچ ہی کا ہے
محشر بدایونی

