مرا راز دل آشکارا نہیں
وہ دریا ہوں جس کا کنارا نہیں
وہ گل ہوں جدا سب سے ہے جس کا رنگ
وہ بو ہوں کہ جو آشکارا نہیں
وہ پانی ہوں شیریں نہیں جس میں شور
وہ آتش ہوں جس میں شرارہ نہیں
بہت زال دنیا نے دیں بازیاں
میں وہ نوجواں ہوں جو ہارا نہیں
جہنم سے ہم بے قراروں کو کیا
جو آتش پہ ٹھہرے وہ پارا نہیں
فقیروں کی مجلس ہے سب سے جدا
امیروں کا یاں تک گزارا نہیں
سکندر کی خاطر بھی ہے سد باب
جو دارا بھی ہو تو مدارا نہیں
کسی نے تری طرح سے اے انیسؔ
عروس سخن کو سنوارا نہیں
غزل
مرا راز دل آشکارا نہیں
میر انیس