مرا پاؤں زیر زمین ہے پس آسماں مرا ہاتھ ہے
کہیں بیچ میں مرا جسم ہے کہیں درمیاں مرا ہاتھ ہے
یہ نجوم ہیں مری انگلیاں یہ افق ہیں میری ہتھیلیاں
مری پور پور ہے روشنی کف کہکشاں مرا ہاتھ ہے
مرے جبر میں ہیں لطافتیں مری قدر میں ہیں کثافتیں
کبھی خالق شب تار ہے کبھی ضو فشاں مرا ہاتھ ہے
کسی بحر خواب کی سطح پر مجھے تیرنا ہے تمام شب
مری آنکھ کشتیٔ جسم ہے مرا بادباں مرا ہاتھ ہے
ابھی حرف لمس وصال کے کسی منطقے پہ رکا نہیں
ابھی گنگ میرا وجود ہے ابھی بے زباں مرا ہاتھ ہے

غزل
مرا پاؤں زیر زمین ہے پس آسماں مرا ہاتھ ہے
رفیق سندیلوی