EN हिंदी
مرا ماضی ہے اک ہتھیار میرا | شیح شیری
mera mazi hai ek hathiyar mera

غزل

مرا ماضی ہے اک ہتھیار میرا

مدھون رشی راج

;

مرا ماضی ہے اک ہتھیار میرا
طماچہ موت کا ہر وار میرا

زمانہ کو بدلنے کے لئے بس
ہے بس کافی دل بیمار میرا

ضرورت تیری ہوگی جس کو ہوگی
مجھے کافی ہے یہ انگار میرا

یہ میری باتیں ہنسنے کو نہیں ہیں
کہ ہر اک لفظ ہے مختار میرا

چلا کے اس کو مجھ پہ دیکھ لے کیا
بگاڑے گی تری تلوار میرا