مرا ماضی ہے اک ہتھیار میرا
طماچہ موت کا ہر وار میرا
زمانہ کو بدلنے کے لئے بس
ہے بس کافی دل بیمار میرا
ضرورت تیری ہوگی جس کو ہوگی
مجھے کافی ہے یہ انگار میرا
یہ میری باتیں ہنسنے کو نہیں ہیں
کہ ہر اک لفظ ہے مختار میرا
چلا کے اس کو مجھ پہ دیکھ لے کیا
بگاڑے گی تری تلوار میرا

غزل
مرا ماضی ہے اک ہتھیار میرا
مدھون رشی راج