مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشک حور لے جانا
کسی صورت سے واں تک تم مرا مذکور لے جانا
اگر وہ شعلہ رو پوچھے مرے دل کے پھپھولوں کو
تو اس کے سامنے اک خوشۂ انگور لے جانا
جو یہ پوچھے کہ اب کتنی ہے اس کے رنگ پر زردی
تو یارو تم گل صد برگ یا کافور لے جانا
اگر پوچھے مرے سینے کے زخموں کو تو اے یارو
کہیں سے ڈھونڈھ کر اک خانۂ زنبور لے جانا
رقیب رو سیہ کے حال کا گر ماجرا پوچھے
تو اس کے سامنے جنگل سے اک لنگور لے جانا
نظیرؔ اک دن خوشی سے یار نے ہنس کر کہا مجھ کو
کہ تو بھی ایک بوسہ ہم سے اے رنجور لے جانا
غزل
مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشک حور لے جانا
نظیر اکبرآبادی