مرا ہی پر سکوں چہرا بہت تھا
میں اپنے آپ میں بکھرا بہت تھا
بہت تھی تشنگی دریا بہت تھا
سرابوں سے ڈھکا صحرا بہت تھا
سلامت تھا وہاں بھی میرا داماں
بہاروں کا جہاں چرچا بہت تھا
انہیں ٹھہرے سمندر نے ڈبویا
جنہیں طوفاں کا اندازا بہت تھا
اڑاتا خاک کیا میں دشت و در کی
مرے اندر مرا صحرا بہت تھا
زمیں قدموں تلے نیچی بہت تھی
سروں پر آسماں اونچا بہت تھا
غزل
مرا ہی پر سکوں چہرا بہت تھا
ملک زادہ منظور احمد