مرا دل اک سلگتا سا کنواں کیوں
یہاں ٹھہرا ہی کرتا ہے دھواں کیوں
وہ ٹھنڈی چھاؤں پیڑوں کی وہ جھونکے
وہاں کیوں آپ ہیں اور ہم یہاں کیوں
کوئی مالک کوئی مالی نہیں کیا
چمن میں اس طرح پگڈنڈیاں کیوں
اک آنسو ہی تو ٹپکا تھا زمیں پر
وہیں نکلا تمہارا آستاں کیوں
توانا آرزو ہم بھی توانا
وہ دبلی کانپتی پرچھائیاں کیوں
جو لمحے انگلیوں سے چھن چکے ہیں
ابھی تک کہہ رہے ہیں داستاں کیوں
خزاں پل بھر میں آیا چاہتی ہے
دیے جاتی ہے خوشبو لوریاں کیوں
غزل
مرا دل اک سلگتا سا کنواں کیوں
کالی داس گپتا رضا