EN हिंदी
مرا دل عجب شادمانی میں گم ہے | شیح شیری
mera dil ajab shadmani mein gum hai

غزل

مرا دل عجب شادمانی میں گم ہے

مشتاق انجم

;

مرا دل عجب شادمانی میں گم ہے
کہ وہ آج میری کہانی میں گم ہے

سمجھتا ہے دل تیرے طرز سخن کو
مگر تیری جادو بیانی میں گم ہے

میں ہوں فطرتاً موج سے لڑنے والا
وہ ملاح کیا جو روانی میں گم ہے

اسے کیا پتا کیا ہے صحرا نوردی
ہواؤں کی جو بے زبانی میں گم ہے

بہت ٹیس اٹھتی ہے دیکھے سے اس کو
وہ کیا ہے جو تیری نشانی میں گم ہے

اسی کا تو حق موتیوں پر ہے انجمؔ
سمندر کی جو بیکرانی میں گم ہے