EN हिंदी
مرا چہرہ ہی الہامی نہیں تھا | شیح شیری
mera chehra hi ilhami nahin tha

غزل

مرا چہرہ ہی الہامی نہیں تھا

نویش ساہو

;

مرا چہرہ ہی الہامی نہیں تھا
کے آنکھیں تھیں مگر پانی نہیں تھا

نگاہیں بس تمہارے ضبط پہ تھیں
میں ورنہ اس قدر ضدی نہیں تھا

کسی دستک پہ میری نیند ٹوٹی
مگر میں سو گیا دل ہی نہیں تھا

سر دیوار چیخیں چیختی تھیں
پس دیوار کوئی بھی نہیں تھا

جلن یہ کہہ رہی تھی جسم میرا
تمہارے لمس سے خالی نہیں تھا