مرا چہرہ ہی الہامی نہیں تھا
کے آنکھیں تھیں مگر پانی نہیں تھا
نگاہیں بس تمہارے ضبط پہ تھیں
میں ورنہ اس قدر ضدی نہیں تھا
کسی دستک پہ میری نیند ٹوٹی
مگر میں سو گیا دل ہی نہیں تھا
سر دیوار چیخیں چیختی تھیں
پس دیوار کوئی بھی نہیں تھا
جلن یہ کہہ رہی تھی جسم میرا
تمہارے لمس سے خالی نہیں تھا
غزل
مرا چہرہ ہی الہامی نہیں تھا
نویش ساہو