مرا باطن مجھے ہر پل نئی دنیا دکھاتا ہے
کسی نادیدہ منزل کا کوئی رستا دکھاتا ہے
خدا بھی زندگی دیتا ہے بس اک رات کی ہم کو
اسی اک رات میں لیکن خدا کیا کیا دکھاتا ہے
ذرا تم دیس کے اس رہنما کے کام تو دیکھو
شجر کو کاٹتا ہے خواب سائے کا دکھاتا ہے
بہت سی خوبیاں ہیں آئنے میں مانتا ہوں میں
مگر اک عیب ہے کمبخت میں چہرا دکھاتا ہے
اس آشوب زمانہ کے لئے میں کیا کہوں تیمورؔ
کہ ہر بکھرا ہوا خود کو یہاں سمٹا دکھاتا ہے
غزل
مرا باطن مجھے ہر پل نئی دنیا دکھاتا ہے
تیمور حسن