مرا انیس مرا غم ہے تم نہ ساتھ چلو
تمہارا اور ہی عالم ہے تم نہ ساتھ چلو
عجب تضاد کا موسم ہے تم نہ ساتھ چلو
چھپائے شعلوں کو شبنم ہے تم نہ ساتھ چلو
خوشی تو غرق غم روزگار ہے میری
لب حیات پہ ماتم ہے تم نہ ساتھ چلو
ہر ایک موڑ پہ جلتے ہیں غربتوں کے چراغ
قدم قدم پہ نیا غم ہے تم نہ ساتھ چلو
زمین خون اگلتی ہے چرخ انگارے
نظام دہر بھی برہم ہے تم نہ ساتھ چلو
ابھی جلی تو ہے تہذیب نو کی شمع مگر
ابھی یہ روشنی مدھم ہے تم نہ ساتھ چلو
جگر کے خوں سے بنایا ہے میں نے سرخ جسے
وہ میرے ہاتھ میں پرچم ہے تم نہ ساتھ چلو
ابھی بنانے ہیں آئین دار و زنداں کے
یہ فرض ہم پہ مقدم ہے تم نہ ساتھ چلو
ہر ایک تار لرزتا ہے ساز ہستی کا
عجیب وقت کا سرگم ہے تم نہ ساتھ چلو
ہے چیرہ دست زمانہ یہ ان سے کہہ دو جلیلؔ
تمہاری زلف بھی برہم ہے تم نہ ساتھ چلو

غزل
مرا انیس مرا غم ہے تم نہ ساتھ چلو
جلیل الہ آبادی