EN हिंदी
کیا میں بھی پریشانیٔ خاطر سے قریں تھا | شیح شیری
kya main bhi pareshani-e-KHatir se qarin tha

غزل

کیا میں بھی پریشانیٔ خاطر سے قریں تھا

میر تقی میر

;

کیا میں بھی پریشانیٔ خاطر سے قریں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں دل غم دیدہ کہیں تھا

کس رات نظر کی ہے سوئی چشمک‌‌‌ انجم
آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا

آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیے لیکن
ہونٹوں پہ مرے جب نفس باز پسیں تھا

اب کوفت سے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا ہاتھ
جو درد و الم تھا سو کہے تو کہ وہیں تھا

جانا نہیں کچھ جز غزل آ کر کے جہاں میں
کل میرے تصرف میں یہی قطعۂ زمیں تھا

نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انھوں کا
جن لوگوں کے کل ملک یہ سب زیر نگیں تھا

مسجد میں امام آج ہوا آ کے وہاں سے
کل تک تو یہی میرؔ خرابات نشیں تھا