EN हिंदी
شوق ہے تو ہے اس کا گھر نزدیک | شیح شیری
shauq hai to hai us ka ghar nazdik

غزل

شوق ہے تو ہے اس کا گھر نزدیک

میر تقی میر

;

شوق ہے تو ہے اس کا گھر نزدیک
دوری رہ ہے راہ بر نزدیک

آہ کرنے میں دم کو سادھے رہ
کہتے ہیں دل سے ہے جگر نزدیک

دور والوں کو بھی نہ پہنچے ہم
یہی نہ تم سے ہیں مگر نزدیک

ڈوبیں دریا و کوہ و شہر و دشت
تجھ سے سب کچھ ہے چشم تر نزدیک

حرف دوری ہے گرچہ انشا لیک
دیجو خط جا کے نامہ بر نزدیک

دور اب بیٹھتے ہیں مجلس میں
ہم جو تم سے تھے بیشتر نزدیک

خبر آتی ہے سو بھی دور سے یاں
آؤ یک بار بے خبر نزدیک

توشۂ آخرت کا فکر رہے
جی سے جانے کا ہے سفر نزدیک

دور پھرنے کا ہم سے وقت گیا
پوچھ کچھ حال بیٹھ کر نزدیک

مر بھی رہ میرؔ شب بہت رویا
ہے مری جان اب سحر نزدیک