EN हिंदी
پشت پا ماری بسکہ دنیا پر | شیح شیری
pusht-e-pa mari bas-ki duniya par

غزل

پشت پا ماری بسکہ دنیا پر

میر تقی میر

;

پشت پا ماری بسکہ دنیا پر
زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر

ڈوبے اچھلے ہے آفتاب ہنوز
کہیں دیکھا تھا تجھ کو دریا پر

گرو مے ہوں آؤ شیخ شہر
ابر جھوما ہی جاہے صحرا پر

دل پر خوں تو تھا گلابی شراب
جی ہی اپنا چلا نہ صہبا پر

یاں جہاں میں کہ شہر گوراں ہے
سات پردے ہیں چشم بینا پر

فرصت عیش اپنی یوں گزری
کہ مصیبت پڑی تمنا پر

طارم تاک سے لہو ٹپکا
سنگ باراں ہوا ہے مینا پر

میرؔ کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر