EN हिंदी
کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات | شیح شیری
kya kahen apni uski shab ki baat

غزل

کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات

میر تقی میر

;

کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات

اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان جب کی بات

نکتہ دانان رفتہ کی نہ کہو
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات

کس کا روئے سخن نہیں ہے ادھر
ہے نظر میں ہماری سب کی بات

ظلم ہے قہر ہے قیامت ہے
غصے میں اس کے زیر لب کی بات

کہتے ہیں آگے تھا بتوں میں رحم
ہے خدا جانیے یہ کب کی بات

گو کہ آتش‌ زباں تھے آگے میرؔ
اب کی کہیے گئی وہ تب کی بات