کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات
اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان جب کی بات
نکتہ دانان رفتہ کی نہ کہو
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات
کس کا روئے سخن نہیں ہے ادھر
ہے نظر میں ہماری سب کی بات
ظلم ہے قہر ہے قیامت ہے
غصے میں اس کے زیر لب کی بات
کہتے ہیں آگے تھا بتوں میں رحم
ہے خدا جانیے یہ کب کی بات
گو کہ آتش زباں تھے آگے میرؔ
اب کی کہیے گئی وہ تب کی بات
غزل
کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات
میر تقی میر