EN हिंदी
نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا | شیح شیری
naqsh baiThe hai kahan KHwahish-e-azadi ka

غزل

نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا

میر تقی میر

;

نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا
ننگ ہے نام رہائی تری صیادی کا

داد دے ورنہ ابھی جان پہ کھیلوں ہوں میں
دل جلانا نہیں دیکھا کسی فریادی کا

تو نے تلوار رکھی سر رکھا میں بندہ ہوں
اپنی تسلیم کا بھی اور تری جلادی کا

شہر کی سی رہی رونق اسی کے جیتے جی
مر گیا قیس جو تھا خانہ خدا وادی کا

شیخ کیا صورتیں رہتی تھیں بھلا جب تھا دیر
رو بہ ویرانی ہو اس کعبے کی آبادی کا

ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میرؔ کی استادی کا