EN हिंदी
نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یار کھینچا | شیح شیری
naqqash dekh to main kya naqsh-e-yar khincha

غزل

نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یار کھینچا

میر تقی میر

;

نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یار کھینچا
اس شوخ کم نما کا نت انتظار کھینچا

رسم قلمرو عشق مت پوچھ کچھ کہ ناحق
ایکوں کی کھال کھینچی ایکوں کو دار کھینچا

تھا بد شراب ساقی کتنا کہ رات مے سے
میں نے جو ہاتھ کھینچا ان نے کٹار کھینچا

مستی میں شکل ساری نقاش سے کھنچی پر
آنکھوں کو دیکھ اس کی آخر خمار کھینچا

جی کھنچ رہے ہیں اودھر عالم کا ہوگا بلوہ
گر شانے تو نے اس کی زلفوں کا تار کھینچا

تھا شب کسے کسائے تیغ کشیدہ کف میں
پر میں نے بھی بغل بغل بے اختیار کھینچا

پھرتا ہے میرؔ تو جو پھاڑے ہوئے گریباں
کس کس ستم زدے نے داماں یار کھینچا