راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
قافلے میں صبح کے اک شور ہے
یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا
سبز ہوتی ہی نہیں یہ سرزمیں
تخم خواہش دل میں تو بوتا ہے کیا
یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
غیرت یوسف ہے یہ وقت عزیز
میرؔ اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا
غزل
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
میر تقی میر