سحر گہہ عید میں دور سبو تھا
پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا
غلط تھا آپ سے غافل گزرنا
نہ سمجھے ہم کہ اس قالب میں تو تھا
چمن کی وضع نے ہم کو کیا داغ
کہ ہر غنچہ دل پر آرزو تھا
گل و آئینہ کیا خورشید و مہ کیا
جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا
کرو گے یاد باتیں تو کہو گے
کہ کوئی رفتۂ بسیار گو تھا
جہاں پر ہے فسانے سے ہمارے
دماغ عشق ہم کو بھی کبھو تھا
مگر دیوانہ تھا گل بھی کسو کا
کہ پیراہن میں سو جاگا رفو تھا
کہیں کیا بال تیرے کھل گئے تھے
کہ جھونکا باؤ کا کچھ مشکبو تھا
نہ دیکھا میرؔ آوارہ کو لیکن
غبار اک ناتواں سا کو بہ کو تھا
غزل
سحر گہہ عید میں دور سبو تھا
میر تقی میر