ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا
دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا
ہر چند شور محشر اب بھی ہے در پہ لیکن
نکلے گا یار گھر سے ہووے گا جب تماشا
بھڑکے ہے آتش غم منظور ہے جو تجھ کو
جلنے کا عاشقوں کے آ دیکھ اب تماشا
طالع جو میرؔ خواری محبوب کو خوش آئی
پرغم یہ ہے مخالف دیکھیں گے سب تماشا
غزل
ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا
میر تقی میر