ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا
رہے جہان میں تو دیر میں رہا نہ رہا
کب اس کا نام لیے غش نہ آ گیا مجھ کو
دل ستم زدہ کس وقت اس میں جا نہ رہا
ملانا آنکھ کا ہر دم فریب تھا دیکھا
پھر ایک دم میں وہ بے دید آشنا نہ رہا
موئے تو ہم پہ دل پر کو خوب خالی کر
ہزار شکر کسو سے ہمیں گلہ نہ رہا
ادھر کھلی مری چھاتی ادھر نمک چھڑکا
جراحت اس کو دکھانے کا اب مزہ نہ رہا
ہوا ہوں تنگ بہت کوئی دن میں سن لیجو
کہ جی سے ہاتھ اٹھا کر وہ اٹھ گیا نہ رہا
ستم کا اس کے بہت میں نزار ہوں ممنون
جگر تمام ہوا خون و دل بجا نہ رہا
اگرچہ رہ گئے تھے استخوان و پوست ولے
لگائی ایسی کہ تسمہ بھی پھر لگا نہ رہا
حمیت اس کے تئیں کہتے ہیں جو میرؔ میں تھی
گیا جہاں سے پہ تیری گلی میں آ نہ رہا
غزل
ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا
میر تقی میر