سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے
تس پہ یہ جان بہ لب آمدہ بھی محزوں ہے
اس سے آنکھوں کو ملا جی میں رہے کیوں کر تاب
چشم اعجاز مژہ سحر نگہ افسوں ہے
آہ یہ رسم وفا ہووے بر افتاد کہیں
اس ستم پر بھی مرا دل اسی کا ممنوں ہے
کبھو اس دشت سے اٹھتا ہے جو ایک ابر تنک
گرد نمناک پریشاں شدۂ مجنوں ہے
کیونکے بے بادہ لب جو پہ چمن میں رہیے
عکس گل آب میں تکلیف مئے گلگوں ہے
پار بھی ہو نہ کلیجے کے تو پھر کیا بلبل
مصرع نالہ جگر کاوی ہے گو موزوں ہے
شہر کتنا جو کوئی ان میں سرشک افشاں ہو
رو کش گریۂ غم حوصلۂ ہاموں ہے
خون ہر یک رقم شوق سے ٹپکے تھا ولے
وہ نہ سمجھا کہ مرے نامے کا کیا مضموں ہے
میرؔ کی بات پہ ہر وقت یہ جھنجھلایا نہ کر
سڑی ہے خبطی ہے وہ شیفتہ ہے مجنوں ہے
غزل
سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے
میر تقی میر