نالے کا آج دل سے پھر لب تلک گزر ہے
ٹک گوش رکھیو ایدھر ساتھ اس کے کچھ خبر ہے
اے حب جاہ والو جو آج تاجور ہے
کل اس کو دیکھیو تم نے تاج ہے نہ سر ہے
اب کی ہوائے گل میں سیرابی ہے نہایت
جوے چمن پہ سبزہ مژگان چشم تر ہے
اے ہم صفیر بے گل کس کو دماغ نالہ
مدت ہوئی ہماری منقار زیر پر ہے
شمع اخیر شب ہوں سن سر گذشت میری
پھر صبح ہوتے تک تو قصہ ہی مختصر ہے
اب رحم پر اسی کے موقوف ہے کہ یاں تو
نے اشک میں سرایت نے آہ میں اثر ہے
تو ہی زمام اپنی ناکے تڑا کہ مجنوں
مدت سے نقش پا کے مانند راہ پر ہے
ہم مست عشق واعظ بے ہیچ بھی نہیں ہیں
غافل جو بے خبر ہیں کچھ ان کو بھی خبر ہے
اب پھر ہمارا اس کا محشر میں ماجرا ہے
دیکھیں تو اس جگہ کیا انصاف داد گر ہے
آفت رسیدہ ہم کیا سر کھینچیں اس چمن میں
جوں نخل خشک ہم کو نے سایہ نے ثمر ہے
کر میرؔ اس زمیں میں اور اک غزل تو موزوں
ہے حرف زن قلم بھی اب طبع بھی ادھر ہے
غزل
نالے کا آج دل سے پھر لب تلک گزر ہے
میر تقی میر