EN हिंदी
میں نے جو بے کسانہ مجلس میں جان کھوئی | شیح شیری
maine jo be-kasana majlis mein jaan khoi

غزل

میں نے جو بے کسانہ مجلس میں جان کھوئی

میر تقی میر

;

میں نے جو بے کسانہ مجلس میں جان کھوئی
سر پر مرے کھڑی ہو شب شمع زور روی

آتی ہے شمع شب کو آگے ترے یہ کہہ کر
منہ کی گئی جو لوئی تو کیا کرے گا کوئی

بے طاقتی سے آگے کچھ پوچھتا بھی تھا سو
رونے نے ہر گھڑی کے وہ بات ہی ڈبوئی

بلبل کی بیکلی نے شب بے دماغ رکھا
سونے دیا نہ ہم کو ظالم نہ آپ سوئی

اس ظلم پیشہ کی یہ رسم قدیم ہے گی
غیروں پہ مہربانی یاروں سے کینہःجوئی

نوبت جو ہم سے گاہے آتی ہے گفتگو کی
منہ میں زباں نہیں ہے اس بد زباں کے گوئی

اس مہ کے جلوے سے کچھ تا میرؔ یاد دیوے
اب کے گھروں میں ہم نے سب چاندنی ہے بوئی