EN हिंदी
سنا ہے حال ترے کشتگاں بیچاروں کا | شیح شیری
suna hai haal tere kushtagan bechaaron ka

غزل

سنا ہے حال ترے کشتگاں بیچاروں کا

میر تقی میر

;

سنا ہے حال ترے کشتگاں بیچاروں کا
ہوا نہ گور گڑھا ان ستم کے ماروں کا

ہزار رنگ کھلے گل چمن کے ہیں شاہد
کہ روزگار کے سر خون ہے ہزاروں کا

ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں
نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا

عرق فشانی سے اس زلف کی ہراساں ہوں
بھلا نہیں ہے بہت ٹوٹنا بھی تاروں کا

علاج کرتے ہیں سودائے عشق کا میرے
خلل پذیر ہوا ہے دماغ یاروں کا

تری ہی زلف کو محشر میں ہم دکھا دیں گے
جو کوئی مانگے گا نامہ سیاہ کاروں کا

خراش سینۂ عاشق بھی دل کو لگ جائے
عجب طرح کا ہے فرقہ یہ دل فگاروں کا

نگاہ مست کے مارے تری خراب ہیں شوخ
نہ ٹھور ہے نہ ٹھکانا ہے ہوشیاروں کا

کریں ہیں دعویٰ خوش چشمی آہوان دشت
ٹک ایک دیکھنے چل ملک ان گنواروں کا

تڑپ کے مرنے سے دل کے کہ مغفرت ہو اسے
جہاں میں کچھ تو رہا نام بے قراروں کا

تڑپ کے خرمن گل پر کبھی گر اے بجلی
جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا

تمہیں تو زہد و ورع پر بہت ہے اپنے غرور
خدا ہے شیخ جی ہم بھی گناہ گاروں کا

اٹھے ہے گرد کی جا نالہ گور سے اس کی
غبار میرؔ بھی عاشق ہے نے سواروں کا